سلام
کیسے عیب تھے وہ نظارے فرات کے
پیاسے تھے اہلِ بیعت کنارے فرات کے
٭
ہوا شہید اصغرِ کمسن تشنہ لب
پیاسی رہی سکینہ کنارے فرات کے
٭
ہے یاد گار تابہ ابد دین کے لئے
سجدہ ترا حسین کنارے فرات کے
٭
اس داستانِ حق نے سنوارا ہے دین کو
جو رقم ہو گئی ہے کنارے فرات کے
٭
حق پہ شہید ہو کے امر ہو گئے حسین
باطن فنا ہوا کنارے فرات کے
٭
اب فوزیہ حسین کی یادوں میں ڈوب کر
جلتے ہیں پانیوں سے کنارے فرات کے
٭٭٭