تالیفات میں تحقیق شدہ ہیںمیں نے مراجعہ کیا اور ان میں چند کی اس کتاب میں تحقیق کی ہے اس لحاظ سے ''مباحث کتاب'' میں قرآن کریم کی تین طرح کی تفسیر پر اعتماد کیا گیا ہے :
۱۔تفسیر روائی:
آیات کی روایات کے ذریعہ تفسیر جیسے سیوطی نے تفسیر ''الدر المنثور''میں اور بحرانی نے ''تفسیر البرھان''میں کیا ہے مگر میں نے انہیں روایتوں پر اعتماد کیا ہے جس کی صحت قابل قبول تھی، جبکہ سیوطی نے ہر وہ روایت جو سے ملی اپنی کتاب میں ذکر کر دی ہے وہ بھی اس طرح سے کہ بعض منقولہ روایات بعض دیگر روایات کی نفی کرتی ہیں اسی لئے ہم نے اس کی بعض روایات پر اس کتاب میں نقد و تحقیق کی ہے ۔حدیث کی کتابوں کی طرف رجوع کر کے مسلمانوں کی تمام معتبر کتابوں، خواہ صحاح ہوں یا مسانید و سنن ان میں سے قابل اعتماد احادیث کا انتخاب کیا نیز کسی خاص مکتب پراخذ حدیث کے سلسلے میں اعتمادنہیں کیا کبھی تحقیق تطبیقی اور ایک حدیث کو دوسری حدیث سے مقایسہ بھی کیا اور ایک نظریہ کاکہ جس نے دو احادیث میں سے کسی ایک پر اعتماد کیا تھادوسرے کی رائے سے موازنہ کیا اور صاحب رای کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے نظریات کو دلیل کے ذریعہ تقویت دی ہے اور ثابت کیاہے۔درایت و فہم حدیث سے متعلق چھٹی صدی ہجری تک کے اکابر محدثین کی روش اپنائی ۔اسی روش کو معالم المدرستین کی تیسری جلد میں (ائمہ اہل بیت نے حدیث شناسی کی میزان قرار دی ہے) کی بحث میں ذکر کیا ہے۔( ۱ )
۲۔ لغوی تفسیر:
آیات کی تفسیر اصطلاحات اور کلمات کے معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، ٹھیک اسی طرح جس طرح سیوطی نے اپنی روایات میں ابن عباس وغیرہ سے ذکر کیا ہے اور چونکہ لغوی دانشور لفظ کے حقیقی اور مجازی معنی کے ذکر میں بحث کو طولانی کر دیتے ہیں لہٰذا میں نے اس روش سے کنارہ کشی اختیار کی اور ان معانی کو ذکر کیا جو سیاق آیت سے سازگار ہیں۔
۳۔ موضوعی تفسیر:
ایک موضوع سے متعلق آیات کی تفسیر ایک جگہ جیسے جو کچھ فقہاء نے اپنی تفاسیر میں آیات احکام کو ذکر کیا ہے ۔
تفسیر کے مذکورہ تینوں ہی طریقے صحیح اور درست ہیں اور اس سلسلہ میں ائمہ معصومین سے روایت بھی وارد ہوئی ہے ۔
____________________
(۱)اس کتاب کی پہلی جلد اسلام کے دو ثقافتی مکتب (معالم المدرستین)کے نام سے ، ترجمہ ہو کر چھپ چکی ہے۔