دوسرے: دیگر روایات میں مذکور ہے کہ ، حضرت آدم نجف کے علاقہ غری میں دفن ہوئے ہیں۔ اور خاتم الانبیاء کے دفن سے متعلق روایت میں ہے : ہر پیغمبر جہاں اس کی روح قبض ہوتی ہے وہیں دفن ہوتاہے ۔
مذکورہ بالا بیان سے نتیجہ نکلتا ہے : حضرت آدم کی بہشت فرات کی زمینوں میں تھی اور جب حضرت آدم اس سے باہر آئے تو اس کے نزدیک ہی اترے، خد اوند عالم نے اس باغ کو خشک کر دیا اور روئے زمین سے اٹھا لیا، تو حضرت آدم نے دوسری جگہ کو درختوں سمیت کشت و کار کے ذریعہ زندہ اور آباد کیا، خدا وند عالم بہتر جانتا ہے ۔
الٰہی امتحان اور حالات کی تبدیلی
اول ؛ فرشتے اور ابلیس: تمام فرشتے اور ابلیس جوکہ ان کے ساتھ تھا، خدا کی عبادت کرتے تھے اور جو بھی خدا انہیں حکم دیتا تھاآسمانوں اور زمینوں میں وہ اس کی اطاعت کرتے تھے اورمعمولی نافرمانی اور خلاف ورزی کے بھی مرتکب نہیں ہوتے تھے یہاں تک کہ خدا وند عالم نے انہیں خبر دی کہ میں زمیں پر خلیفہ بنانا چاہتا ہوں، تو ان لوگوںنے اس خلقت کی حکمتجاننا چاہی اور جب خدا نے اس کی حکمت سے انہیں باخبر کیا اور فرمایا کہ اس کوسجدہ کریں( جس طرح کہ وہ تمام مواقع پر مطیع اور فرمانبردار تھے) سوائے ابلیس کے سب نے اطاعت کی، اس ( ابلیس) نے ان تمام خداوندی احکام اور دستورات کی مخالفت نہیںکی جو اس کی نفسانی خواہشات اور تکبر سے ٹکراتے نہیں تھے لیکن آدم کے سجدہ سے متعلق حکم میں اس نے اپنی خواہشات کا اتباع کیا اور حکم خداوندی کی مخالفت کی اسی لئے جو اس نے راہ اختیار کی تھی فرشتوں کے مقام و منزلت نیز ان لوگوں کے درجہ سے (جنہوں نے خدا کے حکم کی نافرمانی نہیں کی تھی اور ہمیشہ اس کے حکم کے پابند تھے) نیچے آگیا اور عصیان و نافرمانی اور خواہشات کی پیروی کا مرتکب ہو گیااور خداوندعالم نے اس سے کہا: اس منزل سے نیچے اتر جا، تجھے کوئی حق نہیں ہے کہ اس جگہ تکبر اور کبریائی کا اظہار کرے۔
ابلیس ایسی حالت کے باوجود بھی خدا وند عالم کے سامنے نادم اور پشیمان نہ ہوا اور خدا سے توبہ نہ کی اور اس سے معذرت اور بخشش کی درخواست نہیں کی؛ بلکہ اپنی بدبختی کے لئے مزید خدا سے درخواست کی؛ اور بولا: مجھے قیامت تک کی مہلت دیدے! خداوند عالم نے کہا: تجھے مہلت دی گئی۔