اس طرح کی کوشش و تحقیق میں تمام انسانوں کو ایسے نتیجہ تک پہنچاتی ہیں کہ زمین و آسمان اوران دونوں کے درمیان تمام موجودات ایک قانون ساز اور نظم آفرین پروردگار رکھتے ہیں جس نے ان کی زندگی کو منظم اور با ضابطہ بنایا ہے اور یہ وہی خداوند متعال کی بات ہے جوسورۂ اعراف میں ہے کہ وہ فرماتا ہے:
( و اذ اخذ ربک... )
۳۔آیت کی تفسیر
( و اذاخذ ربک من بنی آدم من ظهورهم ذریتهم )
یعنی جب خداوند عالم نے افراد بنی آدم میں سے ہر ایک سے اس کی ذریت اور نسل کو ظاہر کیااور ہر باپ کی نسل اس کی پشت سے جدا ہو گئی تو اشہدھم علیٰ انفسم تو ان میں سے ہر ایک کو خود انہیں پر گواہ بنایا اور تلاش و تحقیق کرنے والی اس فطرت کی راہ سے، جو اس نے ودیعت کی ہے تاکہ حوادث اور موجودات کی علت اور موجودات کی حرکت و سکون کا سبب دریافت کریں ، اس نے ان سے دریافت کیا: کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ اور چونکہ سبھی نے اپنی فطری عقل سے دریافت کرلیا تھا کہ ہر مخلوق کا ایک خالق ہے اور ہر نظم کا ایک ناظم ہے لہٰذا تو سب نے بیک زبان ہاں کہہ دیا ،یہ وہی فطری غریزہ ہے جس نے انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کیا ہے اور انسان اس کے ذریعہ سے صغریٰ و کبریٰ اور نتیجہ نکالنے پر قادر ہوا ہے اوروہ تمام چیزیں جو دیگر مخلوقات کے بس سے باہر ہیں انہیں درک اور دریافت کرتاہے ،انشاء اللہ اس کی شرح و تفصیل آیہ کریمہ ''وعلم آدم الاسماء کلھا'' کی تفسیر میں آئے گی ۔
۴۔انسان ماحول اور ماں باپ کاپابندنہیں ہے
میں نے کہا: خداوند متعال نے اسی فطری غریزہ سے جو انسان کی سرشت میں پایا جاتا ہے انہیں خود انہیں پر گواہ بنایا اور ان سے سوال کیا: کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ تو ان لوگوں نے بھی بزبان فطرت جواب دیا کیوں نہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ہی