زید بن حارثہ کون ہیں؟
زید بن حارثہ کلبی کی بعض سر گز شت اس طرح ہے : زید زمانۂ جاہلیت میں اسیر ہوئے اور عرب کے بعض بازاروں میں انہیں بیچا گیا تو اسے خدیجہ کے لئے خریدلیا گیا۔
خدیجہ نے بعثت سے پہلے جبکہ وہ ۸ سال کے تھے رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم کو بخش دیا، وہ پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس پروان چڑھے اس کی خبر ان کے گھر والوںکو ملی تو ان کے باپ اور چچا انہیں آزاد کرانے کیلئے مکہ آئے اور پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگے: اے عبد المطلب کے فرزند اور اے ہاشم کے فرزند! اے اپنی قوم کے آقا کے فرزند !ہم آپ کے پا س اپنے فرزند کو لینے کے لئے آئے ہیں ہم پر احسان کیجئے اور اس کا عوض لینے سے در گز ر کیجئے! پیغمبر نے کہا کس کے بارے میں کہہ رہے ہو؟ بولے : زید بن حارثہ کے متعلق، فرمایا: کیوں نہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کریں؟ بولے کیا کریں؟ فرمایا: اسے آواز دو اور اسے اپنے اختیار پر چھوڑ دو، اگر تمہیں اختیار کر لے تو تمہارا ہے اور اگر مجھے اختیار کر لے تو خدا کی قسم میں ایسا نہیںہوں کہ اگر کوئی مجھے منتخب کرے تومیں کسی اور کو ترجیح دوں، بولے : یقینا آپ تو حد انصاف سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں، آپ نے ہم پر مہربانی کی،رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم نے زید کو آواز دی اور فرمایا: ان لوگوں کو پہچانتے ہو کہا: ہاں ، یہ میرے والد اور وہ میرے چچا ہیں، فرمایا : میں بھی وہی ہوں جس کو پہچانتے ہواور میری مصاحبت کو دیکھاہے، ہم میں سے جس کا چاہو انتخاب کر لو، زید نے کہا: میں انہیں اختیار نہیں کرتا، میں ایسا نہیں ہوں کہ کسی اور کو آپ پر ترجیح دوںآپ میرے لئے باپ بھی ہیں اور چچا بھی،وہ سب بولے : تجھ پروائے ہو اے زید! کیا تم غلامی کو آزادی اور اپنے باپ اور گھر والوں پر ترجیح دیتے ہو؟ کہا: ہاں، میں نے ان میں ایسی چیز دیکھی ہے کہ کبھی کسی کو ان پر ترجیح نہیں دے سکتا، جب رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم نے ایسا دیکھا تو اسے بیت اللہ میں حجر کی طرف لے گئے اور فرمایا: اے حاضرین ! گواہ رہنا کہ زید میرا بیٹا ہے وہ میری میراث پائے گا اور میں اس کی ! جب زید کے باپ اور چچا نے یہ دیکھا تو مطمئن اور خوشحال واپس چلے گئے۔( ۱ )
اس واقعہ کے بعد زید پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم سے منسوب ہو گئے اورلوگ انہیں زید بن محمد کہنے لگے۔ پیغمبر نے اپنی مربیہ کنیز'' ام ایمن'' کو ان کی زوجیت میں دیدیا اس سے مکہ میں اسامہ بن زید پیدا ہوئے ۔( ۲ )
____________________
(۱) اسد الغابة، ج۲ ص ۲۲۷۔۲۲۴
(۲) اسد الغابة ج۷ص ۳۰۳