جن معبودوں کا یہاں پر ذکر ہے یہ وہ معبود ہیں جن کی پرستش فرعون اور اس کی قوم کیا کرتی تھی، کہ ان کے لئے وہ لوگ قربانی اور اپنے دینی مراسم منعقد کرتے تھے۔
لیکن فرعون خود بھی ''ا لہ'' تھا لیکن الہ مطاع اور مقتدا کے معنی میں اگر چہ یہ بھی احتمال ہے کہ فرعون الوھیت کا بھی دعویدار تھا، یعنی خود کو لائق پرستش معبود تصور کرتا تھا جیسا کہ بہت سی قوموں کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کو ''الھہ'' کی نسل سے سمجھتے تھے چاہے وہ خورشید ہو یا اسکے علاوہ نیز ان کے لئے بعض عبادتی مراسم کا انعقاد بھی کرتے تھے۔
یہ ''اِلہٰ'' کے معنی عرب اور غیر عرب میں موجودہ اور فنا شدہ ملتوں کے درمیان ہیں۔
تیسرے ۔ اسلامی اصطلاح میں اِلٰہ کے معنی
''اِلٰہ'' اسلامی اصطلاح میں خدا وند عالم کے اسمائے حسنیٰ اور معبود نیز مخلوقات کے خالق کے معنی میں ہے اوریہ لفظ قرآن کریم میں کبھی کبھی قرینہ کے ساتھ جو کہ لغوی معنی پر دلالت کرتا ہے استعمال ہوا ہے، جیسے:
( الذین یجعلون مع الله اِلهاً آخر )
وہ لوگ جو خدا کے ساتھ دوسرا معبود قرار دیتے ہیں۔( ۲ )
اس لئے کہ آیت کے دو کلمے:''آخر ''اور'' مع اللہ'' اس بات پر دلیل ہیں کہ اس الہ سے مراد اس کے لغوی معنی یعنی : مطاع اور معبود ہیں یعنی وہی جس کی خدا کے علاوہ عبادت اور پیروی ہوتی ہے ۔
''الہ'' قرآن کریم کی بہت ساری آیات میں بطور مطلق اور بغیر قرینہ کے اصطلاحی معنی میں استعمال ہوا ہے اور ''الوہیت' کو خدا وندسبحان سے مخصوص کرتا ہے ہم آیندہ بحث میں بسط و تفصیل سے بیان کریں گے۔
''اِ لہٰ'' کے معنی میں جامع ترین گفتگو ابن منظورکی کتاب لسان العرب میں مادۂ ''الہ'' کے ذیل میں ابی الھیثم کی زبانی ہے کہ اس نے کہا ہے :خدا وند عز و جل نے فرمایا: خدا وند متعال کے نہ کوئی فرزند ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی الٰہ ہے اس لئے کہ اگر اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہوتا تو ہر خدا اپنی مخلوقات کی دیکھ ریکھ کرتا۔
یعنی کوئی الہ نہیں ہو سکتا مگر یہ کہ معبود ہواور اپنی عبادت کرنے والوں کیلئے خالق، رازق نیز ان پر، مسلط اورقادرہو؛ اور جو ان صفات کا حامل نہ ہو وہ خدا نہیں ہے وہ مخلوق ہے چاہے ناحق اس کی عبادت کی گئی ہو۔
____________________
(۲)حجر ۹۶