6%

آیتوں کی تفسیر

خدا وند عالم گز شتہ آیتوں میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں بعض یہود کی نشاندہی کرتا ہے اور فرماتا ہے :

وہ لوگ کہتے ہیں: ''عزیر خدا کے فرزند ہیں'' یہ گروہ نابود ہو چکا ہے جس طرح بعض مشرکین جو کہتے تھے ''فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں'' نابود ہو گئے ہیں، لیکن نصاریٰ آج بھی پائے جا رہے ہیںجیسا کہ خد اوند عالم نے ان کے بارے میں خبر دی ہے کہ وہ کہتے ہیں : مسیح خدا کے بیٹے ہیں. اور کہتے ہیں: خدا وند عالم تین میں سے ایک ہے: باپ ، بیٹا اور روح القدس؛ سچ ہے کہ قابل فہم نہیں ہے ۔ کس طرح خدا وند واحد،سہ گانہ ہو جائے گا اور وہی سہ گانہ، واحد ! نصاریٰ اپنی ان باتوں سے کفار کے مشابہ اور مانند ظاہر ہوتے ہیں؛ نیز اپنی اس گفتار سے مسیح کی خدائی کے قائل ہو گئے جبکہ مسیح خدا کے رسول کے سوا کچھ نہیںہیں اور ان سے پہلے بھی رسول آئے ہیں۔ ان کی ماں بھی ایک راستگو اور نیک کردار خاتون تھیں، دونوں ہی دوسروں کی طرح غذا کھاتے تھے لہٰذا واضح ہے کہ جو غذا استعمال کرتا ہے وہ بیت الخلا کی ضرورت محسوس کرتا ہے، لہٰذا ایسا شخص معبود اور الہ نہیں ہو سکتا ہے ، بلکہ عیسیٰ بن مریم خدا کا'' کلمہ '' ہیں جسے خداوند عالم نے مریم کو عطاکیا تھا اگر نصاریٰ انہیں اس وجہ سے کہ بن باپ کے پیدا ہوئے ہیں خدا کا بیٹا کہتے ہیں تو ان کی خلقت آدم کی طرح ہے کہ خدا وند عالم نے انہیں خاک سے پیدا کر کے کہا ہو جا تو ''ہو گئے'' سچ تو یہ ہے کہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ خدا صاحب فرزند ہے( جبکہ وہ اس سے منزہ اور پاک ہے کہ کوئی فرزند رکھتا ہو) تو اس بات کے آدم زیادہ حقدار ہیں کہ خدا کے فرزند بن سکیں ؛ اس باطل گفتگو سے خدا کی پناہ، یہ سارے کے سارے ''آدم و عیسیٰ'' ، ملائکہ، جن و انس، آسمان اور زمین خدا کی مخلوق ہیں اور کیا خوب کہا ہے خدا وند سبحان نے:

( قل هو الله احد٭ الله الصمد٭ لم یلد ولم یولد٭ ولم یکن له کفواً احد )

امام حسین سے جب بصرہ والوں نے سوال کیا تو ان کے جواب میں انہوں نے صمد کے معنی بیان فرماتے ہوئے لکھا ہے : خدا وند رحمان و رحیم کے نام سے اما بعد!

قرآن میں بغیر علم و دانش کے غوطہ نہ لگائو اور اس میں جدال نہ کرو اور اس کے بارے میں نادانستہ طور پر گفتگو نہ کرو، میں نے اپنے جد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جو بھی قرآن کے بارے میں نادانستہ طور پر گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے ؛ خدا وند سبحان نے قرآن میں صمد کی تفسیرکرتے ہوئے فرمایا ہے: