گزشتہ آیات کی تفسیر میں قا بل تو جہ مقا مات ( موارد) اور حضرت ابرا ہیم خلیل اللہ کی سرگذشت کا ایک منظراور عقا ئد اسلام پیش کرنے میں انبیا ء علیہم السلام کا طریقہ
پہلا منظر، ابرا ہیم اور مشر کین:
حضرت ابرا ہیم کی جائے پیدائش با بل میں خدا وند وحدہ لا شریک کی عبادت کے بجائے تین قسم کی درج ذیل پرستش ہوتی تھی:
( ۱ ) ستاروں کی پرستش( ۲ ) بتوں کی پرستش( ۳ ) زمانے کے طاغوت (نمرود) کی پرستش۔
حضرت ابرا ہیم نے مشر کین سے احتجاج میں صرف عقلی د لا ئل پر اکتفا ء نہیں کیا (ایسا کام جسے علم کلام کے دانشوروں نے فلسفہ یونانی کی کتابوں کے تراجم نشر ہونے کے بعد، دوسری صدی ہجری سے آج تک انجام دیا ہے اور دیتے ہیں) اور آپ نے اپنے د لائل میں ممکن الوجود، واجب الوجود اور ممتنع الوجود جیسی بحثوں پر تا کید نہیں کی بلکہ صرف حسی د لا ئل جو ملموس اور معقول ہیں ان پر اعتماد کیا ہے جن کو ہم ذیل میں بیان کر رہے ہیں،تو جہ کیجئے:
۱ ۔ ابرا ہیم اور ستارہ پر ست افراد :
ابرا ہیم خلیل اللہ نے ستارہ پر ستوں سے اپنے احتجاج میں آہستہ آہستہ قدم آگے بڑھایا.سب سے پہلے اُن سے فرما یا: تم لو گ تو پُر نور اشیاء کو اپنا رب تصور کر تے ہو، چا ند تو ان سے بھی زیادہ روشن اور نورا نی ہے لہٰذا یہ میرا پروردگا ر ہو گا ؟!
یہ تدریجی اور طبیعی و محسوس اور معقول بات ہے اور یہی امر زینہ بہ زینہ یہاں تک منتہی ہوتا ہے کہ ان کے اذہان چاند سے سورج کی طرف متو جہ ہوجا تے ہیں.اور ابرا ہیم فر ما تے ہیں: یہ میرا ربّ ہے یہ تو سب سے بز رگ اور سب سے زیا دہ نو را نی ہے ؟! خورشید( سورج ) کی بزرگی اور نورانیت سورج کے ڈوبنے اور اس کے نور کے ز ائل ہو نے کے بعد ستا رہ پرستوں کے اذ ھا ن کو اس بات کی طرف متو جہ کر تی ہے کہ ز ائل و فنا ہو نے وا لی چیز لا ئق عبادت نہیں ہے. یہاں پر ابرا ہیم فرماتے ہیں:
( اِنّی بَرِیٔ مِمّٰا تُشرِ کُون٭اِ نّی وَجّهْتُ وَ جْهِیَ لِلََّذی فَطرَ السِّمٰواتِ وَ الْاَرْضِ... )
اے گروہ مشر کین! میں اُس چیز سے جسے تم خدا کا شر یک قرار دیتے ہو بیزار ہوں .میں نے تو خالص ایمان کے ساتھ اس خدا کی طرف رخ کیا ہے جو زمین وآسما ن کا خالق ہے ۔