نتیجہ گیری
جزیرة العرب میں حضرت اسمٰعیل ، حضرت ابراہیم کی حنفیہ شریعت پر وصی، نبی اور رسول تھے،ان کے اور حضرت عیسیٰ کے بعد فترت کے زمانے میں بہت سے مبشرین اور منذرین مبعوث ہوئے تھے، ان میں سے بعض انبیاء واوصیاء حضرت عیسیٰ کی شریعت کے اپنی قوم کے درمیان مبلغ تھے،جیسے حنظلہ، خالد اور وہ راہب جن کی حضرت سلیمان نے شاگردی اختیار کی تھی۔
ام القریٰ (مکّہ) میں بھی پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم کے اجداد کو یکے بعد دیگرے ہم دیکھتے ہیں کہ خا نہ کعبہ کی تعمیر میں مراسم حج کے بر قرار کر نے کے لئے اہتمام کر نا، مہمان نوازی اور کھا نا کھلا نا،بیت اللہ کے زائروں کی ہر طرح سے دیکھ بھال کر نا اور خدا کے مہمانوں تک پا نی پہونچانا، مراسم حج کے آخر تک انھوں نے ان تمام امور میں حضرت ابراہیم کی سنت کی اقتداء کی ہے. موسم حج میں خا نہ خدا کے زائروں کی مہمان نوازی میں اہتمام کر نا نہ فخر ومباہات اور اپنی شخصیت کے لئے تھا اور نہ اپنے قوم و قبیلہ کی شان بڑھانے کے لئے.بلکہ اس کے سائے میں وہ خدا کی خوشنودی کے خواہاں تھے. یہی وجہ تھی کہ اُس ضیافت اور مہما ن نوازی پر خرچ ہونے والے اموال کے لئے شرط لگا دی تھی کہ مال حرام سے نہ ہو. یہ اُ س حال میں ہے کہ خدا وند عالم نے مشرکین کے بارے میں اس طرح خبر دی ہے:
( وَ الَّذِینَ یُنِْفقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئا ئَ النَّاسِ وَ لَا یُؤمِنُوْنَ باللّٰهِ وَ لاَ بِالیَوْمِ الآخِر ) ( ۱ )
وہ لوگ (مشرکین) اپنے اموال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور خدا وند عالم اور روز قیامت پر ایمان نہیں رکھتے۔
ان بزرگوں نے لوگوں کو قیامت اور اس کے نتیجۂ اعمال سے ڈرایا؛ جبکہ خدا وند عالم عصر جاہلیت کے مشرکین اور ان کی گفتگو کے بارے میں اس طرح خبر دیتا ہے:
____________________
(۱)سورۂ نسائ، آیت: ۳۸