مقدمہ
پہلی جلد کے مقد مہ میں ہم نے عرض کیا ہے :
ہم نے اسلا م کے عقائد کو قرآن میں اس طرح سے منسجم اور مربوط پا یاکہ اُ ن میں سے بعض بعض کے لئے مبےّن اور مفسر کی حیثیت رکھتے ہیں. اورسارے کے سارے ایک مجمو عہ کو تشکیل دیتے ہیں اور ان کے تما م اجزاء ایک دوسرے کے لئے مکمّل ( تکمیل کر نے والے) کی حیثیت سے ہیں لیکن چونکہ دا نشو روں نے اپنی تا لیفات میں ان میں سے بعض کو ایک دوسرے سے علیحد ہ ذ کر کیا ہے اور اس کام کے نتیجے میں ان کا انسجام اور عقائد اسلام کی حکمت محققین کی نظر میں پوشیدہ رہ گئی ہے۔
ہم نے اس کتا ب میں اسلا م کے عقائد کو قرآن کر یم میں ایک ہم آہنگ مجمو عہ اور ایک دوسرے کے مکمّل کے عنوان سے پا یا ہے ، لہذا ایک دوسرے سے مربو ط اور سلسلہ وار ہم نے بیان کیا وہ بھی اس طرح سے کہ پہلی بحث ا خری بحث کی راہنما ہے اور ہم اس وسیلہ سے اسلام کے عقائد اور اس کی حکمت کو درک کرتے ہیں۔
ربو بیت کی بحث میں خلا صہ کے طور سے ہم نے ذکر کیاہے:
ربّ ، تدریجاً اور ایک حال سے دوسرے حا ل کی طرف ، اپنے مر بوب ( جس کی تر بیت کی جاتی ہے) کی تربیت میں مشغول ہوتا ہے تا کہ اسے کمال کے در جہ تک پہنچا ئے، خدا وند سبحا ن نے اپنی ربو بیت کے اقتضا ء کے مطابق انسان کے لئے ایک ایسا نظا م بنا یا جو اسکی فطرت کے مطا بق ہے اور اس نظام کے لئے پیغمبروں اور ان کے اوصیاء کو حامل اور محا فظ قرار دیا اور فرمایا:( لِئَلاَّ یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی ﷲ حُجَّة بَعْدَ الرُّسُلِ وَکَانَ ﷲ عَزِیزًا حَکِیمًا)( ۱ ) تاکہ اللہ پر رسولوں کے آنے کے بعد لو گوں کے لئے حجت نہ رہ جا ئے اور خدا وند عالم صاحب عزت اور صاحب حکمت ہے ۔
حضرت خا تم الا نبیا ءصلىاللهعليهوآلهوسلم کے وصی امام علی ـنے بھی فرمایا ہے:(لَا تَخْلُوْا لاَرْضُ مِنْ قَائِمٍ لِلّٰهِ بِحُجَّةٍ، اِمَّا ظَاهراً مَشهُورَاً اَو خَائفاً مَعمُورا لِئلَاَّ تَبْطُلَ حُججُه وَ بَیِّنَاتُهُ )( ۲ ) حجت خدا سے زمین کبھی خالی نہیں رہے گی خواہ ظاہر و آشکار ہویا (دشمنوں کے خوف سے ) پنہان اور مخفی ہو، تا کہ اللہ کے دلا ئل و بر ا ہین با طل نہ ہوں۔
____________________
(۱)سورہ ٔ نسائ: آیت ۱۶۵(۲) وصی کی بحث میں معالم المدرستین، نہج البلاغہ، باب حکم، حکمت ۱۳۹ ملاحظہ ہو.