یہ سلسلۂ عشقِ ولایت ہے علی سے
اک اور نیا بابِ سخن کھولا ہے میں نے
میزانِ محبت میں گہر تولا ہے میں نے
اس روح پہ لکھا سانسوں سے جو مولا ہے میں نے
شبیر کو معلوم ہے کیا بولا ہے میں نے
٭
یہ علم ہے صفدر مجھے قسمت کا دھنی ہوں
مولائی ہوں میں حیدری ہوں پنجتنی ہوں
٭٭
فن مجھ کو ملا ہے یہ نبی زاروں کے در سے
زہرا تری چوکھٹ سے محمد ترے گھر سے
لفظوں کو عطا روشنی ہو شمس و قمر سے
طالب ہوں فقط داد کا اربابِ ہُنر سے
٭
اس بزم میں اب نور جو اُترے گا وہ تکنا
ہر سمت گلستان جو بکھرے گا وہ تکنا
٭٭