اذاں سن کر وہ یوں مسجد کے زینے سے اتر آیا
اذاں سن کر وہ یوں مسجد کے زینے سے اتر آیا
کہ جیسے نوح کا بیٹا سفینے سے اتر آیا
٭
بہت ہی صاف اور اجلے تھے پہلے آسماں اور ہم
یہ نیلا پن زمیں کا زہر پینے سے اتر آیا
٭
نظر آئے جو کچھ معصوم چہرے اس کی آنکھوں میں
میں خنجر پھینک کر دشمن کے سینے سے اتر آیا
٭
کوئی تتلی اڑی یارو نہ کوئی شاخ گل لچکی
زمیں پر پیڑ کا سایہ قرینے سے اتر آیا
٭
امانت جس کی تھی اس کے قدم کی چاپ سنتے ہی
وہ بوڑھا سانپ فورا ہی دفینے سے اتر آیا
٭
مرے دشمن ذرا خاک وطن کو سونگھ کر بتلا
کہ یہ عطر لہو کس کے پسینے سے اتر آیا
٭