16%

چنانچہ عارف کے نقطہ نظر سے یہ روح اور جان حقیقی نہیں ہے اور یہ روح اور جان کی شناخت بھی ”خود شناسی“ نہیں ہے‘ بلکہ روح خود اپنے آپ کا اور ”من“ کا مظہر ہے۔

”من حقیقی“ خدا ہے جب انسان فنا ہو جائے اور اس کا اپنا وجود ٹوٹ جائے اور اس کی جان اور روح کا کوئی نشان باقی نہ رہے تب دریا سے یہ جدا شدہ قطرہ دریا (یعنی گل) میں واپس چلا جاتا ہے اور اس میں گم ہو جاتا ہے۔ تبھی انسان اپنی ”حقیقی خود شناسی“ کو پا لیتا ہے‘ اسی وقت انسان اپنے آپ کو تمام اشیاء میں اور تمام اشیاء کو خود اپنے اندر دیکھتا ہے اور تبھی وہ اپنی حقیقی ذات سے باخبر ہو جاتا ہے۔

8 ۔ پیغمبرانہ خود شناسی

یہ ”خود شناسی“ باقی تمام اقسام ”خود شناسی“ سے مختلف ہے۔ پیغمبر کی خود شناسی کا تعلق خدا سے بھی ہے اور مخلوق سے بھی وہ درد خدا بھی رکھتا ہے اور درد مخلوق بھی لیکن نہ ثنویت اور دوگانگی کی شکل میں نہ دو قطبوں کی صورت میں نہ ہی قبلوں کی شکل میں اور نہ یہ کہ اس کا آدھا دل خدا کی طرف ہوتا ہے اور آدھا مخلوق کی طرف یا اس کی ایک آنکھ خدا کی طرف ہوتی ہے اور دوسری مخلوق کی طرف یا اس کی محبت‘ مقاصد اور آرزوئیں خدا اور خلق کے درمیان منقسم ہوتی ہیں‘ ایسا ہرگز نہیں۔

قرآن حکیم میں آیا ہے:

ماجعل الله لرجل من قلبین فی جوفه (سورئہ احزاب‘ آیت 4)