انسان کی مختلف قوتیں
”قوت“ کسی تعریف کی محتاج نہیں ایسا عنصر جس سے کوئی اثر ظاہر ہو ”قوت“ کہلاتا ہے۔ دنیا کی ہر شے کسی ایک یا زیادہ خاصیتوں کی حامل ہوتی ہے اس لئے ہر شے میں چاہے جمادات ہوں یا نباتات حیوانات ہوں یا انسان ”قوت“ پائی جاتی ہے اور اگر ”قوت“ کے ساتھ ”فہم و ادراک“ اور خواہش بھی مل جائے تو وہ ”قدرت“ کہلاتی ہے۔
ایک اور فرق جو ”انسان اور حیوانات“ اور ”نباتات و جمادات“ کے درمیان پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ”انسان اور حیوانات“، ”نباتات و جمادات“ کے برعکس اپنی قوت اپنے میلان اور شوق یا خوف اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والی خواہش کی بناء پر عمل میں لاتے ہیں مثلاً مقناطیس لوہے کو خودبخود یا ایک فطری جبر کے تحت اپنی طرف کھینچتا ہے لیکن نہ وہ اپنے اس عمل سے آگاہ ہے اور نہ ہی کوئی میلان اور شوق یا ڈر یا خوف اس امر کا متقاضی ہے کہ وہ لوہے کو اپنی طرف کھینچے یہی صورت آگ کی ہے جو جلاتی ہے گھاس کی ہے جو زمین سے اگتی ہے اور درخت کی ہے جس سے شگوفے پھوٹتے ہیں اور پھل لگتے ہیں لیکن جب حیوان چلتا ہے تو اپنے عمل سے آگاہ ہوتا ہے اور اس کا ارادہ اس امر کا متقاضی ہوتا ہے کہ وہ چلے پھرے اور اگر اس کی خواہش نہ ہوتی تو وہ جبراً نہ چلتا اسی لئے کہا جاتا ہے کہ حیوان ایک باارادہ متحرک شے ہے یا بہ الفاظ دیگر حیوان کی بعض قوتیں اس کے ارادہ کی تابع ہیں یعنی اگر حیوان چاہے تو اس قوت کو عمل میں لائے اور نہ چاہے تو عمل میں نہ لائے۔