خود شناسی
اسلام نے اس بات پر خصوصی توجہ دی ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچانے اور اس عالم وجود میں اپنے مرتبہ کو سمجھے جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ خود شناسی کے ذریعے اپنے آپ کو اس بلند مقام پر پہنچائے جس کا وہ اہل ہے۔
قرآن حکیم انسان ساز کتاب ہے یہ کسی ایسے نظری فلسفہ پر مشتمل نہیں ہے جس کا تعلق محض بحث و نظر اور منظر سے ہو یہ جس منظر کو بھی پیش کرتی ہے وہ عمل کے لئے ہوتا ہے۔ قرآن حکیم کا منشاء یہ ہے کہ انسان ”خود“ کو کشف کرے البتہ اس کے اس ”خود“ کا کشف ”شناختی کارڈ“ کا ”خود“ نہیں ہے جس میں لکھا ہوتا ہے:
”تیرا نام کیا ہے؟ تیرے باپ کا نام کیا ہے؟ تیرا سال پیدائش کیا ہے؟ تو کس ملک کی قومیت رکھتا ہے؟ تو کس علاقے کا باشندہ ہے؟ تو نے کس سے شادی کی ہے؟ اور تیرے کتنے بچے ہیں؟“
قرآن حکیم کا ”خود“ وہ ہے جو ”روح خدا“ کہلاتا ہے جسے پہچاننے کے بعد انسان اپنے اندر شرافت بزرگی اور بلندی محسوس کرتا ہے اور اپنے آپ کو اخلاقی پستی میں گرانے سے بچاتا ہے اپنے تقدس کو سمجھتا ہے اور اخلاقی اور معاشرتی پاکیزگی اس کے لئے بلند ”اقدار“ بن جاتی ہیں۔
قرآن حکیم انسان کے ایک برگزیدہ شخصیت ہونے کے بارے میں گفتگو کرتا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ تو ایک ایسے اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں ہے جو کسی امر کے واقع ہونے (مثلاً ایٹموں کے اتفاقی طور پر جمع ہو جانے) سے وجود میں آیا ہو بلکہ تو ایک برگزیدہ اور منتخب ہستی ہے۔ اسی بناء پر تو خدائی پیغام کا حامل اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔
بے شک انسان زمین پر قوی ترین مخلوق ہے اگر زمین اور اس کے موجودات کو ایک خطہ فرض کیا جائے تو انسان اس خطے کا امیر شمار کیا جائے گا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آیا وہ منتخب امیر ہے یا اس نے اپنی طاقت کے ذریعے اس مقام پر قبضہ کیا ہے؟