16%

انسان قرآن کی نظر میں :

فطرت کے مسئلے پر اسلامی نکتہ نگاہ سے تحقیق ایک الگ کتاب کی صورت میں ”فطرت“ کے نام سے چھپ چکی ہے۔ یہاں پر بس اتنا بیان کرنا ضروری ہے کہ اسلام کا تصور فطرت وہ نہیں جو ڈیکارٹ اور کانٹ وغیرہ کے نزدیک ہے کیوں کہ ان کے نزدیک انسان میں پیدائش کے وقت سے کچھ ادراکات رجحانات اور تماثلات بالفعل یا عملی طور پر موجود ہوتے ہیں اور فلاسفہ کی اصطلاح میں انسان بالفعل عقل اور ارادے کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح سے انسانی فطرت کے بارے میں ہم فطرت کے منکرین جیسے مارکسزم اور اگزیسٹینشلزم (فلسفہ وجودیت) کے نظریے کو بھی قبول نہیں کرتے جو یہ کہتے ہیں کہ انسان ہر چیز کو قبول کرنے کی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے اور اسے جو بھی کردار دیا جائے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا بالکل ایک سفید کاغذ کی طرح جس پر جو کچھ لکھا جائے مساوی ہے جب کہ ہمارے نزدیک انسان پیدائش کے وقت بالقوہ اور استعدادی صلاحیت کے تحت کچھ چیزوں کے لئے میلانات اور تحرکات لے کر پیدا ہوتا ہے اور ایک باطنی قوت خارجی عوامل کی مدد سے ان چیزوں کی طرف اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ اگر اس کی بالقوہ صلاحیت تک متشکل ہو جائے تو وہ ایسی عملی شکل یا فعلیت تک پہنچ جاتا ہے جو اس کے لائق ہے اور انسانیت کہلاتی ہے اور اگر خارجی عوامل کے جبر سے اس پر مذکورہ فعلیت کے علاوہ کوئی اور فعلیت مسلط کر دی جائے تو وہ ایک مسخ شدہ ”ہستی“ میں بدل جاتا ہے اسی بناء پر انسان کے مسخ ہونے کا مسئلہ جس کی بات مارکسزم اور اگزیسٹینشلزم (فلسفہ وجودیت) کے پیروکار بھی کرتے ہیں صرف مکتب اسلام کے نظریے کے ذریعے ہی قابل حل ہے۔

اس مکتب کے نکتہ نگاہ سے پیدائش کے وقت انسان کی کمالات اور اقدار سے نسبت ناشپاتی کے ایک ننھے سے پودے اور ایک تناور درخت کی باہمی نسبت کی سی ہے کیوں کہ ایک باطنی قوت خارجی عوامل کی مدد سے اس ننھے پودے کو درخت میں تبدیل کر دیتی ہے۔ یہ نسبت لکڑی کے تختے اور کرسی کی سی نہیں جنہیں صرف بیرونی عوامل مختلف صورتوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔