23 ۔ آمدنی کا مصلحت کی بنیاد پر ہونا نہ کہ طلب و تقاضے کی بنیاد پر:
عام طور پر چیزوں کی قدر و قیمت اور مالیت کا تعین صارفین کی طلب اور مانگ سے ہوتا ہے اور کسی کام کے جائز ہونے کے لئے اس کام کے عوام کی خواہشات کے مطابق ہونے کو کافی سمجھا جاتا ہے لیکن اسلام کسی چیز کی مالی قدر و قیمت کے تعین اور لوگوں کے کام کو جائز قرار دینے کے لئے لوگوں کی طلب اور مانگ کو کافی نہیں سمجھتا بلکہ کام کے معاشرے کی مصلحت کے مطابق ہونے کو عرف شریعت میں مالیت کے تعین اور کام کے جائز ہونے کے لئے لازمی شرط قرار دیتا ہے یعنی اسلام صرف لوگوں کی خواہشوں اور رغبتوں کو جائز آمدنی کا منبع نہیں سمجھتا بلکہ خواہشات اور رغبتوں کے علاوہ معاشرے کی مصلحت کے ساتھ آمدنی کو بھی شرط قرار دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسلام لوگوں کی طلب کو رسد کے جواز کے لئے کافی نہیں جانتا اس لئے اسلام میں بعض کاموں اور کسب کے طریقوں کو ”مکاسب محرمہ“ کہا گیا ہے۔ مکاسب محرمہ (کمانے کے حرام طریقے) چند قسم کے ہیں:
(الف) چیزوں کا ایسا لین دین جو جہالت میں ڈآلنے کا موجب ہو۔ ایسی چیزیں جو لوگوں کو عملاً جہالت اور فکری و اعتقادی روگردانی کی طرف راغب کرنے اور شُق دلانے کا سبب ہوتی ہیں حرام ہیں اگرچہ ان کی مانگ کافی مقدار میں ہو اس لحاظ سے بت فروشی صلیب کا بیچنا تدلیس ماشطہ (عورت کی آرائش کرنا اور اس آرائش کے ذریعے عورت کے عیوب کو چھپانا تاکہ اس کا رشتہ لینے کے لئے آنے والے فریب کھا جائیں) کسی ایسے شخص کی مدح کرنا جو اس مدح کا مستحق نہ ہو کہانت اور غیب گوئی یہ سب امور حرام ہیں اور ان طریقوں سے مال وصول کرنا بھی ممنوع اور حرام ہے۔