16%

”ایک حقیقی مسلمان کی توحید ایک خیال اور خشک عقیدہ نہیں ہے جس طرح ذات خدا پنی مخلوقات سے جدا نہیں ہے بلکہ سب کے ساتھ ہے اور سب پر محیط ہے۔ ساری چیزیں اسی سے شروع ہوتی ہیں اور اسی پر ختم ہوتی ہیں۔“

اسی طرح توحید کا تصور بھی ایک حقیقی موحد کے پورے وجود پر محیط ہوتا ہے اس کے تمام افکار و خیالات اس کی تمام قوتوں اور اس کے طور طریقوں پر سایہ فگن ہو جاتا ہے اور ان سب کی ایک خاص سمت کی طرف رہنمائی کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک حقیقی مسلمان کے کام کی ابتداء انتہا اور وسط اللہ کی ذات ہوتی ہے اور وہ کسی چیز کو اللہ کا شریک قرار نہیں دیتا۔

27 ۔ واسطوں کی نفی:

اسلام اگرچہ نزول فیض میں واسطوں اور ذریعوں کو قبول کرتا ہے اور علت و معلول کے نظام کو خواہ وہ امور مادی ہوں اور خواہ امور معنوی میں حقیقی اور واقعی شمار کرتا ہے مگر پرستش اور عبادت کی منزل میں تمام وسائل اور ذرائع کو مسترد کر دیتا ہے جیسا کہ ہم سب اس چیز سے بخوبی آگاہ ہیں کہ تحریف شدہ مذاہب میں فرد (یعنی انسان انفرادی حیثیت سے) خدا سے براہ راست رابطہ اور تعلق کی قدر و قیمت اپنے ہاتھ سے کھو چکا ہے خدا اور بندے کے درمیان جدائی فرض کر لی گئی ہے صرف کاہن یا روحانی پیشوا براہ راست خدا کے ساتھ راز و نیاز کر سکتا ہے اور پس اسی کو حق ہے کہ دوسرے تمام لوگوں کے پیغامات کو خدا تک پہنچائے۔ اسلام میں یہ کام ایک طرح کا شرک گنا جاتا ہے قرآن کریم صراحت کے ساتھ کہتا ہے:

”(اے حبیب) اگر میرے بندے میرے بارے میں تم سے سوال کریں تو کہہ دو! میں نزدیک ہوں میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں۔“