انسان کی شناخت
انسان اپنی بھی شناخت رکھتا ہے اور دنیا کی بھی‘ اور یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور دنیا کو اس سے بھی زیادہ پہچانے‘ کیوں کہ اس کا تکامل‘ ترقی اور سعادت اپنی دو صورتوں کی مرہون ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں کس کی اہمیت زیادہ ہے اور کس کی کم؟ لیکن اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں۔
بعض لوگ ”خود شناسی“ کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور بعض ”دنیا شناسی“ کو‘ مشرقی اور مغربی طرز فکر میں اختلافات کی ایک وجہ وہ دو طرح کے جوابات ہیں جو اس سوال کے دیئے جاتے ہیں‘ جیسا کہ علم اور ایمان میں فرق کی ایک وجہ بھی یہی ہے کہ علم دنیا شناسی کا ذریعہ ہے اور ایمان خود شناسی کا سرمایہ ہے۔
البتہ علم کی کوشش یہ ہوتی ہے جس طرح انسان کو دنیا شناسی تک پہنچاتا ہے اسی طرح اس کو ”خود شناسی“ میں بھی مدد دے اور علم النفس کی یہی ذمہ داری ہے لیکن علم جس طرح کی خود شناسی کا ذریعہ ہے‘ وہ خود شناسی بالکل مردہ اور بے جان ہے‘ اس سے نہ تو دلوں میں ولولہ پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی انسان کی خوابیدہ قوتیں بیدار ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس جس ”خود شناسی“ کے حصول کا ذریعہ دین اور مذہب ہے اور اس میں ایمان کی آمیزش ہوتی ہے وہ اپنی ایمانی قوت سے وجود انسان کو گرما دیتی ہے۔ یہ وہ خود شناسی ہے جو انسان کو اس کی حقیقی ذات سے آشنا کرتی‘ اس کو غفلت سے بیدار کرتی‘ اس کی روح کو گرماتی اور اس کو درمند اور درد آشنا بناتی ہے اور یہ کام سائنس اور فلسفہ کے بس کی بات نہیں۔