16%

جوں جوں انسان کی آگاہی کا درجہ بڑھتا جاتا ہے‘ اس کی حیات اور جانداری کا درجہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔

ظاہر ہے کہ زیربحث ”خود شناسی“، ”شناختی کارڈ“ والی خود شناسی نہیں ہے‘ جس میں لکھا ہوتا ہے کہ میرا نام کیا ہے؟ میرے ماں باپ کا نام کیا ہے؟ میری جائے پیدائش کون سی ہے؟ اور میری سکونت کہاں ہے؟ اور اسی طرح سے زیربحث ”خود شناسی“ حیاتیات کی شناخت بھی نہیں ہے جو حیوانات کی شناخت میں انسان کو ریچھ یا بندر سے بالاتر درجے کا ایک حیوان قرار دے۔

اس مقصد کی مزید وضاحت کے لئے ہم یہاں ”حقیقی خود شناسی“ کی اقسام مختصراً بیان کرتے ہیں‘ مجازی خود آگاہی سے قطع نظر خود شناسی کی چند اقسام ہیں:

1 ۔ فطری خود شناسی

انسان ذاتاً خود شناس ہے‘ یعنی اس کی ذات کا جوہر ہی آگاہی ہے‘ لیکن ایسا نہیں ہے کہ پہلے انسان کا جوہر ذات وجود میں آئے اور اس کے بعد انسان اس سے آگاہ ہو‘ بلکہ اس کے جوہر ذات کی پیدائش ہی اس کی خود آگاہی کی پیدائش ہے اور اس مرحلے میں آگاہ ”آگاہی“ اور درجہ آگاہی میں آیا ہوا‘ تینوں ایک ہی چیز ہیں۔ جوہر ذات وہ حقیقت ہے جو عین خود آگاہی ہے۔

دوسری چیزوں سے کم و بیش آگاہی کے بعد والے مراحل میں اپنے بارے میں بھی اسے اسی طرح سے آگاہی حاصل ہوتی ہے یعنی اپنے بارے میں انسان ذہن میں ایک تصور قائم کر لیتا ہے اور اصطلاحی الفاظ میں علم حصولی کے ذریعے خود سے آگاہ ہوتا ہے‘ لیکن اس طرح کی آگاہی سے قبل بلکہ ہر طرح کی دوسری چیزوں کی شناخت سے قبل اپنے بارے میں وہ علم حضوری رکھتا ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا۔