متفرقات
جب تری رہ گزر پہ آنے لگے راہبر راہ سے ہٹانے لگے
وار دشمن کے سب گئے خالی دوستوں کے سبھی نشانے لگے
٭
میں نے پوچھا کوئی نئی تازہ حال میرا مجھے سنانے لگے
تجھ کو سوچا تو سادے کاغذ پر کچھ خیالات مسکرانے لگے
٭
دل ترا غم بھلا چکا جاناں یہ الگ بات ہے زمانے لگے
تھے یہ تازہ رفاقتوں کے سبب زخم لیکن بہت پرانے لگے
بن نہ پائے جو تم ہنسی لب کی آنسوؤں میں ہی جھلملانے لگے
خود کو مجھ سے کرو گے پھر بد ظن تم مجھے پھر سے آزمانے لگے
٭٭٭