چپ چاپ کھڑا تھا میں بلاتے رہے رستے
چپ چاپ کھڑا تھا میں بلاتے رہے رستے
بستی سے مری،شہر کو جاتے رہے رستے
٭
ہم اہل جنوں ہیں ہمیں منزل سے غرض کیا
ہم چلتے رہے ہمکو چلاتے رہے رستے
٭
صدیوں سے مسافر کوئی آیا نہ گیا ہے
ہم کس کیلئے روز سجاتے رہے رستے
٭
آنگن ہی میں بن جائے گی لوگوں کی گذر گاہ
وسعت میں جو شہروں کی سماتے رہے رستے
٭
جو کر گئے ویران مرے شہر کی گلیاں
ان لوگوں کا احوال سناتے رہے رستے
٭
بے مہر زمانے تری پتھریلی زمیں پر
ہم اہل وفا روز بناتے رہے رستے
٭