50%

چپ چاپ کھڑا تھا میں بلاتے رہے رستے

چپ چاپ کھڑا تھا میں بلاتے رہے رستے

بستی سے مری،شہر کو جاتے رہے رستے

٭

ہم اہل جنوں ہیں ہمیں منزل سے غرض کیا

ہم چلتے رہے ہمکو چلاتے رہے رستے

٭

صدیوں سے مسافر کوئی آیا نہ گیا ہے

ہم کس کیلئے روز سجاتے رہے رستے

٭

آنگن ہی میں بن جائے گی لوگوں کی گذر گاہ

وسعت میں جو شہروں کی سماتے رہے رستے

٭

جو کر گئے ویران مرے شہر کی گلیاں

ان لوگوں کا احوال سناتے رہے رستے

٭

بے مہر زمانے تری پتھریلی زمیں پر

ہم اہل وفا روز بناتے رہے رستے

٭