الیاس احمد انصاری شادابؔ (آکولہ)
دل سکوں پا گیا، راحتیں مل گئیں
آفتیں ذکر سے ٹل گئیں، ٹل گئیں
*
اس زمیں پر فلک پر تری حمد ہے
خانقاہوں میں اک عالم وجد ہے
*
خشک دھرتی ہو، جل تھل تری ذات ہے
حکم سے تیرے برسی یہ برسات ہے
*
را ہوں میں زندگی کی بغاوت رہی
بندگی تیری مثل علامت رہی
*
رحمتوں سے تیری، پاپ دھل جائیں گے
پھوٹی قسمت کے سب پھول کھل جائیں گے
*
رحمتیں ہیں تری عام انسان پر
برق کیسے گرے پھر مسلمان پر
*
نام کا بحر میں بھی ترے ورد ہے
تو ہی تو میری شہہ رگ سے بھی نزد ہے
*
پاؤں کی اس رگڑسے بہا آب ہے
تو جو چاہے تو بنجر بھی شادابؔ ہے
***