زاہدہ تقدیسؔ فردوسی (جبلپور)
اے میرے خالق! مرے پروردگار
نطق دل آویز بخشا کر دگار
*
علم کی دولت عطا کی خوب تر
نعمتیں بخشیں مجھے تو نے ہزار
*
شکر ہو کیسے ادا ناچیز سے
لفظ کم احسان تیرے بے شمار
*
قوت گویائی کر مجھ کو عطا
شکر تیرا ہو زباں پر بار بار
*
زندگی کیا جانے کیسے کٹ گئی
ہوں خطاؤں پر نہایت شرمسار
*
دار فانی میں نہیں لگتا ہے دل
دامن دل ہو چکا ہے تار تار
*
دامن عصیاں کے دھبے دھو سکوں
اشک آنکھوں سے رواں ہوں زار زار
*
ہو دم آخر لبوں پر تیرا نام
ختم ہوں تقدیسؔ کے لیل و نہار
***