حمد
قیصر شمیم (کولکتہ)
میں اندھیرے میں ہوں، روشنی دے خدا
آگہی دے خدا، آگہی دے خدا
*
تیرے بندے کا دل بجھ نہ جائے کہیں
غم دیئے ہیں بہت، کچھ خوشی دے خدا
*
یا خدا، یا خدا کی صدا لب پہ ہو
وجد کرتی ہوئی زندگی دے خدا
*
میں طلب گار دریا کا تجھ سے نہیں
کب سے پیاسا ہوں، اک بوند ہی دے خدا
*
درپہ تیرے رہوں آخری سانس تک
اس طرح کی مجھے بندگی دے خدا
*
ایک دنیا خودی میں گرفتار ہے
بے خودی دے خدا، بے خودی دے خدا
*
ساز قیصرؔ کو تو نے دیا ہے تو پھر
اس کی آواز کو سوز بھی دے خدا
***