محمد ہارون سیٹھ سلیم (بنگلور)
کشتی میری ڈوب رہی ہے بیچ بھنور میں اے مولا
میرا معاون کوئی نہیں ہے بحر و بدر میں اے مولا
*
وسط سمندر میرے مالک، میں ہی ایک اکیلا ہوں
میرا ساتھی کوئی نہیں ہے آج سفر میں اے مولا
*
نہ میں زاہد نہ میں عابد، میں تو بس اک عارف ہوں
مجھ کو یقیں ہے، سب ہیں برابر تیری نظر میں اے مولا
*
سوکھے ہوئے بھرپور شجر تھے جتنے بھی تھے باغوں میں
برگ و ثمر کو دیکھا میں نے، ایک شجر میں اے مولا
*
کہتے ہیں کہ نام خدا کا ثبت ہے ذرے ذرے پر
ڈھونڈ رہا تھا نام ترا میں لعل و گہر میں اے مولا
*
پھیلا ہے جو نور منور سارے جہاں میں شام و سحر
اس کا مطلب تو ہی تو ہے، شمس و قمر میں اے مولا
*
گزریں گے جب خضر یہاں سے حال سناؤں گا اپنا
پلکیں بچھائے کب سے کھڑا ہوں، راہ خضر میں اے مولا
*