(۲)
ہر رنگ نرالا دے، ہر روپ نمایاں دے
یا رب مرے گلشن کو وہ لطف بہاراں دے
*
تو زخم سے واقف ہے تو درد سمجھتا ہے
اس زخم کا مرہم دے اس درد کا درماں دے
*
دنیا کے جو طالب ہیں تو ان سے بچا مجھ کو
جو تجھ سے ملا پائے وہ صحبت انساں دے
*
ہر خوف نکل جائے دل سے مرے دنیا کا
بس ایک تیرا ڈر ہو وہ قوت ایماں دے
*
عصیاں سے بھرا دامن دھل جائے مرا جس سے
وہ ابر کرم دے اور وہ بارش احساں دے
*
جینے کی امنگیں ہوں، پر نور ترنگیں ہوں
اس بزم عطا کو تو وہ شمع فروزاں دے
***