غلام مرتضیٰ راہی (فتح پور)
پل پل کی میں روداد رقم کرتا چلا جاؤں
صدیوں کے لئے خود کو بہم کرتا چلا جاؤں
*
اٹھ کر ترے در سے مجھے جانا ہو جہاں بھی
محسوس ترا لطف و کرم کرتا چلا جاؤں
*
رکھے مجھے توفیق سبک بار ہمیشہ
احسان کو احسان میں ضم کرتا چلا جاؤں
*
ٹھہروں ترے نزدیک میں کردار کا غازی
پورے میں سبھی قول و قسم کرتا چلا جاؤں
*
دنیا سے مرا فاصلہ بڑھتا رہے چاہے
تجھ سے جو ہے دوری اسے کم کرتا چلا جاؤں
*
ہر آن کوئی تازہ تڑپ رخت سفر ہو
جو زخم ملے سینے میں دم کرتا چلا جاؤں
*
فرق آئے نظر نشو و نما میں مجھے جن کی
ایسی سبھی شاخوں کو قلم کرتا چلا جاؤں
*