(۲)
گردشِ شام اور سحر میں تو
ہر پرندے کے بال و پر میں تو
*
مور کے پنکھ میں تری قدرت
برق، سیلاب اور بھنور میں تو
*
ان کی تابندگی ہے امر ترا
لعل و یاقوت میں گہر میں تو
*
کوئی انکار کر نہیں سکتا
مٹی، پانی، ہوا، شرر میں تو
*
سارا عالم ہے تیرے قبضے میں
ملک، صوبہ، نگر نگر میں تو
*
دل میں ساحلؔ کے تو ہی رہتا ہے
اس کی مغموم چشمِ تر میں تو
* * * *