مدہوش بلگرامی (ہردوئی)
وہی میکدہ وہی بادہ کش وہی مئے ہے اور وہی جام ہے
وہی معرفت کا حصار ہے وہی زندگی کا نظام ہے
*
نہ یہاں خرد کے ہے دسترس نہ یہاں جنون کا کام ہے
یہ نیاز و ناز کی انجمن ہے یہ بندگی کا مقام ہے
*
کبھی دھوپ ہے کبھی چھاؤں ہے کبھی صبح ہے کبھی شام ہے
ہیں خدا کی تابع حکم سب یہ اسی کا حسن نظام ہے
*
مرے ذکر میں مری فکر میں مرے صبح و شام کے ورد میں
مجھے ناز ہے کہ ترے حبیب کا اور تیرا ہی نام ہے
*
مری زندگی کا یہ میکدہ ہے کرم سے جن کے سجا ہوا
یہ جو میرے ہاتھ میں جام ہے یہ انہیں کا فیض دوام ہے
*
نہ سرور و کیف کی چاہ ہے نہ نشاط و عیش کی ہے طلب
مرے دل کا ہے وہی مدعا جو رضائے رب انام ہے
*
تو ہی ابتدا تو ہی انتہا ہے عیاں بھی تو ہے نہاں بھی تو
جو فراز عرش سے فرش تک ہے تو ہی وہ جلوۂ عام ہے
*