عرش صہبائی (جموں )
(۱)
عظمتوں کا نشاں ہے تیرا نام
اک حسیں داستاں ہے تیرا نام
*
مجھ کو تجھ سے شکایتیں کیا کیا
پھر بھی ورد زباں ہے تیرا نام
*
دل میں یہ جذبے ہی سہی لیکن
روح میں بھی رواں ہے تیرا نام
*
میری را ہوں میں روشنی اس سے
سر بہ سر کہکشاں ہے تیرا نام
*
زندگی حادثوں کی دھوپ کڑی
دھوپ میں سائباں ہے تیرا نام
*
کتنی وسعت ہے اس کے معنوں میں
کس قدر بیکراں ہے تیرا نام
*
دل نشیں داستاں ہے یہ دنیا
حاصل داستاں ہے تیرا نام
*