(۲)
دل بھی ہے وہی دل کی تمنا بھی وہی ہے
دنیا بھی وہی حاصل دنیا بھی وہی ہے
*
شکلیں ہیں الگ اس کی نہیں اور کوئی فرق
دریا بھی وہی وسعت صحرا بھی وہی ہے
*
ہر کوئی مصیبت میں پریشان ہے ناحق
غم بھی ہے وہی غم کا مداوا بھی وہی ہے
*
یہ جام و سبو اپنی جگہ خوب ہیں لیکن
صہبا بھی وہی مستی صہبا بھی وہی ہے
*
جو کچھ بھی ہے دنیا میں کرم ہے یہ اسی کا
جلوہ بھی وہی حسن سراپا بھی وہی ہے
*
یہ دیکھنا لازم ہے کہ ہم کس کے ہیں قابل
اک آس بھی ہے یاس کی دنیا بھی وہی ہے
*
انسان تو بے سود ہی اتراتا ہے خود پر
ادنیٰ بھی وہی ہے یہاں اعلیٰ بھی وہی ہے
*