10%

اختر بیکانیری

زباں تیری فلک تیرا ہر اک کو جستجو تیری

مکین ولا مکاں تیرا گلوں میں رنگ و بو تیری

*

عیاں ہے ذرے ذرے سے تیری شان کریمانہ

غرض تا حد امکاں تک ہے مدحت چار سو تیری

*

نہیں موقوف رسم بندگی دنیا میں انساں پر

چرندوں اور پرندوں کی زباں پر گفتگو تیری

*

جگا دیتی ہے بانگ مرغ شب میں سونے والوں کو

ادا کرتے ہیں برگ و گل عبادت با وضو تیری

*

دہلا دیتی ہے منھ غنچوں کا شبنم صبح دم آ کر

رواں صحن چمن ہوتی ہے صدائے حق و ہو تیری

*

ہر اک دل میں نہاں ہے اور ہے نظروں میں پوشیدہ

پھرا دونوں جہاں میں لے کے اخترؔ آرزو تیری

***