اختر بیکانیری
زباں تیری فلک تیرا ہر اک کو جستجو تیری
مکین ولا مکاں تیرا گلوں میں رنگ و بو تیری
*
عیاں ہے ذرے ذرے سے تیری شان کریمانہ
غرض تا حد امکاں تک ہے مدحت چار سو تیری
*
نہیں موقوف رسم بندگی دنیا میں انساں پر
چرندوں اور پرندوں کی زباں پر گفتگو تیری
*
جگا دیتی ہے بانگ مرغ شب میں سونے والوں کو
ادا کرتے ہیں برگ و گل عبادت با وضو تیری
*
دہلا دیتی ہے منھ غنچوں کا شبنم صبح دم آ کر
رواں صحن چمن ہوتی ہے صدائے حق و ہو تیری
*
ہر اک دل میں نہاں ہے اور ہے نظروں میں پوشیدہ
پھرا دونوں جہاں میں لے کے اخترؔ آرزو تیری
***