نظیر احمد نظیر (کامٹی)
شکم میں ماں کے ہر اک شکل کو بناتا ہے
مگر کسی کو کسی سے نہیں ملاتا ہے
*
میرے خدا یہ تیری شان کبریائی ہے
اندھیرے گھر سے اجالے میں تو ہی لاتا ہے
*
ملا کے رکھ دیا دہقاں نے خاک میں گندم
یہ تیری شان ہے اس کو تو ہی اگاتا ہے
*
میں اپنی نیند سے جاگوں مری مجال کہاں
تو ہی سلاتا ہے یا رب تو ہی اٹھاتا ہے
*
نظر میں تاب کہاں دیکھنے کی نظارے
تیرا ہی نور ہے آنکھوں میں جو دکھاتا ہے
*
پلک جھپکتے ہی یہ زندگی ہو جائے فنا
تیرا کرم ہے جو سانسوں میں آتا جاتا ہے
*
یہ بات سچ ہے کے جس کا مجھے نہیں انکار
نظیرؔ حکم سے تیرے قلم اٹھاتا ہے
***