سکندر عرفان (کھنڈوہ)
سب کو جزا کا دینے والا اللہ تو
اور سزا کا دینے والا اللہ تو
*
یوں تو دوا کا دینے والا ہے انساں
صرف شفا کا دینے والا اللہ تو
*
ذلت تری ہی صرف بقا کی حامل ہے
حکم فنا کا دینے والا اللہ تو
*
موسیٰ جب مجبور کھڑے تھے دریا پر
ان کو عصا کا دینے والا اللہ تو
*
یہ نہ ملیں تو پل بھر میں مر جاتے ہم
پانی ہوا کا دینے والا اللہ تو
*
پودوں کے ان پژمردہ سے ہونٹوں کو
جام گھٹا کا دینے والا اللہ تو
*
غم بھی دئے ایوبؔ کو تو نے یہ سچ ہے
صبر و رضا کو دینے والا اللہ تو
*
میں نے کی عرفانؔ جو میری دنیا
صلہ وفا کا دینے والا اللہ تو
***