صابر جوہری (بھدوہی)
(۱)
رقم اوصاف رب کے کر رہا ہے
قلم کاغذ پہ سجدے کر رہا ہے
*
کرم کی ہو رہی ہے عام بارش
زمانہ اس کے چرچے کر رہا ہے
*
منور نور ہستی سے تو یا رب!
دلوں کے آبگینے کر رہا ہے
*
عطا کر کے لقب یٰسین و طہٰ
بلند انساں کے درجے کر رہا ہے
*
اسے بھی رزق تو دیتا ہے یا رب!
خدائی کے جو دعوے کر رہا ہے
*
جہنم سے ڈراتا ہے اگر تو
تو جنت کے بھی وعدے کر رہا ہے
*
ترا احساں کہ ہر طوفاں کی زد سے
مری کشتی کنارے کر رہا ہے
*