(۳)
آسماں تیرا ہے یہ شمس و قمر تیرے ہیں
یہ افق نور شفق، شام و سحر تیرے ہیں
*
آتے جاتے ہوے یہ شادی و غم کے موسم
ان کے معمول میں جو بھی ہیں اثر تیرے ہیں
*
سائباں بن کے کھڑی ہے تیری رحمت ہر سو
مجھ پہ جو سایہ فگن ہیں وہ شجر تیرے ہیں
*
تو نے ہی بخشی ہے یہ فطرت حساس مجھے
ہیں جو اس دل کے صدف میں وہ گہر تیرے ہیں
*
تیرے بخشے ہوئے جلوے ہیں خدایا مجھ میں
میرے اندر جو نمایاں ہیں ہنر تیرے ہیں
*
ہے جو ہستی میں میری روح امانت ہے تری
دل کے اندر سبھی آباد نگر تیرے ہیں
***