(۲)
یہ مہر و ماہ منور غلام تیرے ہیں
تمام نور کے مظہر غلام تیرے ہیں
*
تغیرات زمانہ ہیں تری قدرت میں
یہ عرش و فرش کے منظر غلام تیرے ہیں
*
ترے غلام خدایا ہیں نغمہ بار پرند
تو نامہ بر یہ کبوتر غلام تیرے ہیں
*
ترے جہاں کے گداؤں کا ذکر کیا یا رب
زمانے بھر کے سکندر غلام تیرے ہیں
*
کروں نہ کیوں میں اطاعت تری مرے مولا
تمام پیر و پیمبر غلام تیرے ہیں
*
کہاں کہاں نہ غلامی میں ہے تری خلقت
یہ سیپ سیپ میں گوہر غلام تیرے ہیں
*
تری رضا پہ ہے موقوف فکر کی پرواز
تخیلات کے شہپر غلام تیرے ہیں
*
ترا غلام ترا نصرؔ کیوں نہ ہو یا رب
کہ ذی وقار سخنور غلام تیرے ہیں
***