حافظ اسرارسیفی (آرہ)
تو ہی میری آرزو ہے تو ہی میری جستجو
اول و آخر بھی تو ہے ظاہر و باطن بھی تو
*
تو نے دامان زمیں کو موتیوں سے بھر دیا
اور جہان آسماں کو قمقموں سے بھر دیا
*
رازق و خلاق تو ہے حافظ و ناصر ہے تو
آنکھ سے اوجھل ہے لیکن ہر جگہ ظاہر ہے تو
*
نعمتیں ہیں ان گنت اور رحمتیں ہیں بے شمار
ہر قدم پر ہے عنایت تیری اے پروردگار
*
ہے منور نور بھی اور نور کا محور بھی تو
تو ہی ہے تحسین فطرت اور مہہ و اختر بھی تو
*
تو ہی مندر کا جرس ہے تو ہی مسجد کی اذاں
ذرے ذرے میں ہے روشن تیرے جلووں کا نشاں
*
قطرۂ ناچیز ہوں میں اور تو بحر رواں
تیری مدحت کے لیے ہے گنگ ناطق کی زباں
*
بخش دے سیفیؔ کو مولا ہے کرم تیرا بڑا
بندۂ ناچیز یہ ہے بحر عصیاں میں پڑا
***