(۲)
میں بے قرار ہوں مجھ کو قرار دے ربی
مرا نصیب و مقدر سنوار دے ربی
*
ہوا ہے گلشنِ امید میرا پژمردہ
خزاں کی کوکھ سے فصلِ بہار دے ربی
*
قدم قدم پہ ہیں خارِ نفاق و بغض و حسد
اس امتحاں سے سلامت گزار دے ربی
*
میں مخلصانہ دعا دشمنوں کو دیتا رہوں
تو میرے دل میں وہ جذبہ ابھار دے ربی
*
میں جو کہوں یا لکھوں سب میں عشق ہو تیرا
میرے خیال کو اتنا نکھار دے ربی
*
بہت برا ہے گنا ہوں سے حال ساحلؔ کا
یہ بار سر سے تو اس کے اتار دے ربی
***