(۴)
فکر جب دی ہے مجھے اس میں اثر بھی دے دے
پیڑسرسبز دیا ہے تو ثمر بھی دے دے
*
راہِ پر خار سے میں ہنس کے گزر جاؤں گا
عزم کے ساتھ ہی توفیقِ سفر بھی دے دے
*
خانۂ دل مرا خالی ہے محبت سے تری
سیپ تو دی ہے مجھے اس میں گہر بھی دے دے
*
شکر تیرا کہ مجھے طاقت گویائی دی
التجا یہ ہے دعاؤں میں اثر بھی دے دے
*
سوچ کی ساری حدیں ختم ہوئیں تو نہ ملا
صبح کاذب کو مری نورِ سحر بھی دے دے
*
دوستی کرنے کا ساحل کو سلیقہ تو دیا
زیر کرنے کا حریفوں کو ہنر بھی دے دے
***