قرآن میں ان مدارج سے متعلق ہر بات آسان لفظوں میں بیان کر دی گئی ہے، جو آسانی سے انسان کی سمجھ میں آنے والی ہے اور صدیوں بعد دریافت ہونے والے حقائق سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہے۔ مثلاً بار آوری کا عمل رقیق مادے کی نہایت قلیل مقدار سے انجام پانا، مرد کے مادہ منویہ کا بچے کی جنس کا ذمہ دار ہونا، بار آور شدہ بیضہ کا استقرار تین پردوں کے اندر ہونا اور رحم کے اندر Embryo کا ارتقا۔ ڈاکٹر موریس بکائی کے بقول پندرہ سو سال پرانی کتاب کے ان بیانات اور جدید سائنس سے حاصل شدہ ان حقائق میں مطابقت کے نتیجے میں آدمی مکمل طور پر حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔

تمام اجرام فلکی کا حرکت پذیر ہونا

قرآن مجید کے نزول کے وقت یونانی مفکر بطلیموس ( Ptolemy ) کا نظریہ کائنات مانا جاتا تھا جس کے مطابق زمین کائنات کا مرکز ( Centre ) ہے اور اس کے علاوہ تمام اجرام فلکی اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔ چاند ایک Hollow Ball میں Fixed ہے جو شیشے جیسی کسی شے سے بنا ہوا ہے۔ دیگر سیارے ( Planets ) اور سورج بھی Hollow Ball میں ہیں، جس میں ستارے Fixed ہیں۔ اس نے تمام نظام کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ستاروں کا ظاہر ہونا اور ڈوبنا بھی اسی Ball کی حرکت کی وجہ سے ہے۔

اہل یورپ پندرھویں صدی تک ان نظریات کو درست سمجھتے رہے۔ اس کے بعد یورپ میں سائنسی ریسرچ کے دور کا آغاز ہوا۔ سولہویں صدی میں پولینڈ کے ماہر فلکیات Copernicus نے اپنا انقلابی نظریہ پیش کیا جس کے مطابق مرکز زمین نہیں، بلکہ سورج ہے۔ زمین اور دیگر سیارے اپنے اپنے مرکز کے گرد گھومتے ہوئے، دائروں میں سورج کے گرد گردش کر رہے ہیں۔ ایک اور ماہر فلکیات Kepler Johannes نے سترھویں صدی میں بتایا کہ سیارے دائرے میں نہیں، بلکہ Ellipse میں گردش کر رہے ہیں۔ اطالوی سائنس دان گلیلیو نے اپنی بنائی ہوئی دوربین سے مشاہدہ کر کے ان حقائق کی تصدیق کی۔