50%

کشتی نوح

رسولوں کی تاریخ ہی کے حوالے سے قرآن مجید حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کا ذکر کرتا ہے کہ وہ دنیا والوں کے لیے نشانی ہے۔ کچھ سال پہلے ایک روسی ہوا باز نے (جو راستہ بھٹک گیا تھا) برف میں پھنسی ہوئی ایک بہت بڑی کشتی کی موجودگی محسوس کی ہے۔ لہذا وہ دن دور نہیں جب قرآن مجید میں بیان کردہ دیگر نشانیوں کی طرح یہ نشانی بھی ایک انسان کے سامنے آ جائے گی:

"اور ہم نے اس کو اپنے تختوں اور میخوں والی پر اٹھا لیا اور جو چلتی رہی، ہماری حفاظت میں۔ یہ ہم نے بدلہ لینے کے لیے کیا، اس کا جس کی ناقدری کی گئی اور ہم نے اس کو ایک نشانی بنا چھوڑا، تو ہے کوئی کہ سوچے سمجھے۔"

(قمر۵۴:۱۳-۱۵)

"پھر ہم نے نوح اور کشی والوں کو نجات دی اور کشی کو اہل عالم کے لیے نشانی بنا دیا۔" (العنکبوت۲۹:۱۵)

جدید تحقیقات اور خدا

اگر ہم غور کریں تو کیا جدید تحقیقات نے موروثی عقیدے کے طور پر نہیں، بلکہ شعوری طور پر یہ یقین کرنا آسان نہیں کر دیا کہ اس کائنات کو بنانے والی ایک ذی شعور ہستی Mind موجود ہے اور قرآن اس کا پیغام ہے جو اس نے ہماری رہنمائی کے لیے ہم تک پہنچایا ہے، ورنہ جن حقائق سے پردہ اب اٹھ رہا ہے، ان کی خبر نہایت صاف اور واضح الفاظ میں پندرہ سو سال پہلے کی کسی کتاب میں کیسے موجود ہے؟

یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ ان حقائق کو ثابت کرنے کے لیے آیات کی کھینچ تان کر Interpretation نہیں کی گئی، بلکہ یہ آیات کا سادہ ترجمہ ہے۔ اس ترجمہ کی تصدیق بغیر کسی تردد کے ہو سکتی ہے، کیونکہ قرآن مجید کا Text ایک زندہ زبان میں محفوظ ہے جسے تقریباً بیس کروڑ انسان بولتے ہیں اور بے شمار دوسرے اگر بولتے نہیں تو سمجھ سکتے ہیں۔