50%

پیش لفظ

فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ ان کی آنکھ کھلی تو وقت دیکھا۔ تین بج رہے تھے، "اس وقت فون! یا اللہ خیر!" بے اختیار ان کے منہ سے نکلا۔ وہ جوتا پہنے بغیر اپنے کمرے سے نکلے۔ فون لاؤنج میں رکھا تھا۔ یہ کھٹکا بھی ذہن میں تھا کہ کہیں فون بند ہی نہ ہو جائے۔ وہ جلدی سے فون تک پہنچے۔ رسیور اٹھایا۔ السلام علیکم سے بات کا آغاز کیا، مگر جواب میں انھیں وہ کچھ کہا گیا جس کی ان کو ہرگز ہرگز توقع نہ تھی۔ وہ سمجھ گئے کہ انھیں محض تنگ کرنے کے لیے فون کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کا پہلا رد عمل غصے ہی کا تھا لیکن وہ ان لوگوں میں سے تھے جو سوچ سمجھ کر کام کرتے ہیں۔ انھوں نے سوچا کہ اگر میں نے ان لوگوں کو ڈانٹا، برا بھلا کہا تو ان کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ان کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ تنگ ہونے والے کی جھڑکیوں، گالیوں اور جھنجھلاہٹ سے لطف اندوز ہوں۔ چنانچہ انھوں نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ ان کا مقصد ہرگز پورا نہیں کریں گے۔ لمحوں میں کیے گئے اس فیصلے پر وہ ڈٹے رہے۔ فون کرنے والے نوجوان تھے۔ وہ باری باری ان سے بات کرتے، انھیں چڑانے کی کوشش کرتے مگر وہ ان کے سامنے برف کی چٹان بن گئے تھے۔ وہ ان کی ہر بات کا انتہائی شائستگی سے جواب دیتے۔ ان کے اس رویے نے نوجوانوں کے ضمیر کو جگا دیا۔ اب ان کے لہجے میں بھی شائستگی اور احترام آ چکا تھا اور پھر یہ گفتگو ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی۔ اس دوران میں انھوں نے نوجوانوں سے ہر موضوع پر بات کی۔ نوجوانوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ وہ میڈیکل کے طالب علم ہیں۔ مطالعہ کرنے کے بعد اپنی تھکن اتارنے کے لیے انھوں نے کچھ "انجوائے" کرنے کا پروگرام بنایا اور اب تک وہ انیس آدمیوں کو جگا کر خوب "انجوائے" کر چکے ہیں۔ تب ان صاحب نے کہا کہ آپ لوگوں کی تفریح کچھ مہنگی قسم کی نہیں ہے؟ نوجوان ذہین تھے، ان کی بات سمجھ گئے اور کہنے لگے: "ہاں آپ کی بات درست ہے، ان انیس لوگوں میں کچھ ضعیف بھی تھے، بیمار بھی اور دن بھر کے تھکے ہوئے بھی!" ایسا کہتے ہوئے ان کی آواز میں پچھتاوا اور شرم ساری صاف ٹپک رہی تھی۔