قرآن، کائنات اور انسان
قرآن مجید تقریباً پندرہ سو سال پہلے نازل ہوا۔ اس کے نزول کا مقصد موجودہ عارضی زندگی میں انسان کی بحیثیت فرد اور معاشرہ رہنمائی کرنا ہے۔ انسان کو چونکہ ہمیشہ ہی سے ہدایت کی ضرورت رہی ہے اور رہے گی، اسی لیے اللہ تعالی نے اپنے اس آخری پیغام کو ہمیشہ کے لیے ہر قسم کی تحریف سے محفوظ کر لیا ہے:
"بے شک ہم نے ہی اس پیغام کو نازل کیا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔" (الحجر۱۵:۹)
اگرچہ قرآن مجید کے Reader کو اس میں حیرت انگیز طور پر متعدد ایسی آیات ملیں گی جو کسی نہ کسی طرح سائنسی مظاہر سے متعلق ہیں، تاہم ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن مجید اصلاً کوئی سائنس کی کتاب نہیں اور نہ ہی اس کا مقصد سائنس کی Promotion ہے۔ اس کا بنیادی پیغام آیندہ آنے والی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کی یاددہانی اور منادی ہے۔ وہ اس حقیقت کی جانب مختلف اسالیب میں توجہ دلاتا ہے۔ اسی حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے وہ انسان کو خود اس کے اپنے اندر موجود نشانیوں اور کائنات میں پھیلے ہوئے مختلف مظاہر پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ ان سائنسی مظاہر کے متعلق قرآن مجید کا بیان مختصر اور جامع ہے۔ یہ اپنے ماننے والوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ ان اشاروں کو مشعل راہ بنا کر تحقیق کریں اور حقائق کی تہ تک پہنچیں۔ یہ عمل نہ صرف ان کے آخرت کے متعلق موروثی عقیدے کو یقین میں بدلنے کا ذریعہ بن سکتا ہے، بلکہ علم اور ایجادات کی دنیا میں بھی انھیں سب سے ممتاز بنا سکتا ہے۔
ابتداً عرب کے مسلمانوں نے قرآن کی اسی ہدایت پر عمل کیا اور سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ جدید سائنسی علوم کے بانی مسلمان ہی ہیں۔ انھی سے اہل یورپ نے یہ علم سیکھا اور اسے آگے بڑھایا اور اس طرح وہ دنیا کے لیڈر بن گئے۔