مجھے وہ زباں نہیں چاہئے
جو تری ثنا میں نہ ہو فنا مجھے وہ زباں نہیں چاہیئے
ترے پیار میں ہیں مری رتیں مجھے یہ جہاں نہیں چاہیئے
٭
تری خاکِ پا یے میری حنا ترا عکس بھی میرا آئینہ
میں فقط نظر تو نظارہ گر مجھے تو کہاں نہیں چاہیئے
٭
جو نظر میں ہو ترا روپ بھی شبِ ماہ لگتی ہے دھوپ بھی
تری رحمتیں جو پناہ دیں کوئی سائباں نہیں چاہیئے
٭
مری سانس ہوں تیری چاپ ہو فلک اور زمیں کا ملاپ ہو
تری روشنی کے سوا کوئی سرِ کوئے جاں نہیں چاہیئے
٭
مرے دھیان کو وہ رسائی دے مجھے تو یہیں سے دکھائی دے
کوئی واسطہ کوئی راستہ کوئی کارواں نہیں چاہیئے
٭٭٭