گھر چکا ہوں میں گناہوں میں خدا
گھر چکا ہوں میں گناہوں میں خدا
لے لے تو اپنی پناہوں میں خدا
*
کر حفاظت کہ بہت ہی کم ہے
روشنی میری نگاہوں میں خدا
*
استقامت دے عزائم کو مرے
خار ہی ہیں راہوں میں خدا
*
کر عطا اپنی محبت مجھ کو
گم ہے دل من کے اِلاہوں میں خدا
*
دے ہدایت کہ خوشی ملتی ہے
بدعت و شرک کی باہوں میں خدا
*
اپنے انجام سے بے حد ڈر کر
آیا ہوں تیری پناہوں میں خدا
*
قلبِ ساحل کو مصفا کر دے
وہ مقید ہے گناہوں میں خدا
***