شمعِ عرفان و یقیں دل میں جلا دے مولی
شمعِ عرفان و یقیں دل میں جلا دے مولیٰ
راہ جو سیدھی ہے، وہ راہ بتا دے مولیٰ
*
تجھ کو پانے میں یہ قوت ہے رکاوٹ کا سبب
فتنہ و شر کو مرے دل سے مٹا دے مولیٰ
*
یہ گرفتار ہے گردابِ مسائل میں ابھی
کشتیِ زیست مری پار لگا دے مولیٰ
*
ساری مخلوق کا دراصل ہے تو ہی خالق
آگ نفرت کی ہر اک دل سے بجھا دے مولیٰ
*
میرا ہر لفظ ترے عشق کا مظہر بن جائے
سوچ کو میری وہ پاکیزہ ادا دے مولیٰ
*
تیرے مصحف کی تلاوت کروں آسانی سے
نور آنکھوں کا مری اتنا بڑھا دے مولیٰ
*
عالمِ فانی و باقی میں بھلائی دے دے
نار دوزخ سے بھی ساحلؔ کو بچا دے مولیٰ
***