فکر جب دی ہے مجھے اس میں اثر بھی دیدے
فکر جب دی ہے مجھے اس میں اثر بھی دیدے
پیڑ سرسبز دیا ہے تو ثمر بھی دیدے
*
راہِ پر خار سے میں ہنس کے گزر جاؤں گا
عزم کے ساتھ ہی توفیقِ سفر بھی دیدے
*
تجھ کو پہچان سکوں دیکھ کے حسنِ فطرت
آنکھ تو دی ہے مگر ایسی نظر بھی دیدے
*
خانۂ دل مرا خالی ہے محبت سے تری
سیپ تو دی ہے مجھے اس میں گہر بھی دیدے
*
شکر تیرا کہ مجھے طاقت گویائی دی
التجا یہ ہے دعاؤں میں اثر بھی دیدے
*
سوچ کی ساری حدیں ختم ہوئیں تو نہ ملا
صبح کاذب کو مری نورِ سحر بھی دیدے
*
دوستی کرنے کا ساحل کو سلیقہ تو دیا
زیر کرنے کا حریفوں کو ہنر بھی دیدے
***