امن عالم کے لیے انسانِ اکمل بھیج دے
امن عالم کے لیے انسانِ اکمل بھیج دے
العطش کا شور ہے رحمت کے بادل بھیج دے
*
فکر عاقل سے جہنم بن چکی ہے یہ زمیں
ان کو سمجھانے خدایا کوئی پاگل بھیج دے
*
عہدِ نو کو روشنی سے جس کی کچھ ہو فائدہ
علم و دانش کا کوئی ماہِ مکمل بھیج دے
*
جس کو پیتے ہی مجھے ہو معرفت تیری نصیب
ساغرِ عرفاں کی ربی ایسی چھاگل بھیج دے
*
مسلکِ ذاتی سے ملت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی
اختلاف و نزع کا یا رب کوئی حل بھیج دے
*
رہ گئی ہے چشم ساحل میں ذرا سی روشنی
اس کی آنکھوں کے لیے نورانی کاجل بھیج دے
***