33%

امن عالم کے لیے انسانِ اکمل بھیج دے

امن عالم کے لیے انسانِ اکمل بھیج دے

العطش کا شور ہے رحمت کے بادل بھیج دے

*

فکر عاقل سے جہنم بن چکی ہے یہ زمیں

ان کو سمجھانے خدایا کوئی پاگل بھیج دے

*

عہدِ نو کو روشنی سے جس کی کچھ ہو فائدہ

علم و دانش کا کوئی ماہِ مکمل بھیج دے

*

جس کو پیتے ہی مجھے ہو معرفت تیری نصیب

ساغرِ عرفاں کی ربی ایسی چھاگل بھیج دے

*

مسلکِ ذاتی سے ملت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی

اختلاف و نزع کا یا رب کوئی حل بھیج دے

*

رہ گئی ہے چشم ساحل میں ذرا سی روشنی

اس کی آنکھوں کے لیے نورانی کاجل بھیج دے

***